صبیحہ اپنے ماضی میں غلطاں جانے کب سے اپنے دل کو کوئلہ کر رہی تھی۔
پرانے قصے سوچ کر کبھی خود کو کوسنے لگتی اور کبھی گزرے دنوں کو یاد کر کے خوش ہوتی اور خود کو مطمئن کرتی۔
اسی لمحے دروازے پر کھٹ پٹ ہوئی تو وہ بھاگتی ہوئی دروازےتک گئی کہ شاید اس کا کوئی اپنا اسے لینے آیا ہے مگر ہر بارپاگل خانے کی نرس بے حسی کا ثبوت دیتے ہوئے اسے دھکا دے کر واپس اپنی جگہ گرا کر چلی جاتی۔ اور وہ پھر سے اپنی سسکیوں کے ہمراہ اپنے سرور کے خیالوں میں غرق ہو جاتی۔
آسیہ شا ہین چکوال
No comments:
Post a Comment