"لاحاصل خواہشات"
از "سحر سہیل"
کہنے کو تو انسان اشرف المخلوقات کے درجہ پر فائض ہے اور فرشتوں نے بھی اسے سجدہ کیا لیکن اسی انسان کو جب اللہ جی نے اس دنیا میں بھیجا تو گویا اسکے ہاتھ پاؤں باندھ دیے ۔ کہنے کو تو انسان روز اس دنیا کو نت نئے طریقوں سے فتح کر رہا ہے پر بات جب اسکی ایک معمولی ، چھوٹی ،اور بے ضرر خواہش کو پورا کرنے کی آتی ہے تو وہ بے بس ہو جاتا ہے۔اور انسان تو پھر انسان ہی ہے وہ تب بھی نہیں سمجھتا کہ اگر اللہ نہ چاہتا تو وہ ایک زرہ تک کو بھی دریافت نا کر پاتاکہ "جب تک اللہ نہ چاہے کویئ نہیں چاہ سکتا۔" کبھی کبھی ایسا ہوتا ہے کہ ہم کسی ایسی چیز کی خواہش کر بیٹھتے ہیں جسکا حصول بظاہر تو بہت آسان لگتا ہے لیکن در حقیقت وہ ہماری پہنچ سے بہت دور ہوتی ہے اور ہر ممکن کوشش کے باوجود ہم اس چیز کو حاصل نہیں کر پاتے اس خواہش کو پورا نہیں کر پاتےاور تب ہم خود کو بہت بے بس محسوس کرتے ہیں ہےاور وہ بے بسی کچھ کو صبر کی طرف لے جاتی ہےاور کچھ کو ایک ایسی بند گلی میں جہاں سے واپسی کا راستہ ہر کسی کو نہیں ملتا ۔ انسان آخر اتنا بے بس کیوں ہے کہ کسی ایک کو اپنی بات نا سمجھا سکےاور وہ بھی وہ شخص جسکا سمجھنا اسکے لیے باقی سب پر بھاری ہو؟ اتنا بے بس کے جب وہ یہ سوچتے سوچتے تھکنے لگے کہ "سب اچھا نہیں ہے تو کیا ہوا ، ایک دن آیگا جب سب اچھا ہو جاۓگآ" تو وہ اس ٹوٹتی امید کو پھر سے جوڑنے کے لیے کچھ بھی نا کر سکے؟ اتنا بے بس کہ وہ خود کو یہ یقین نا دلا سکے کہ ایک ایسا دن بھی آیگا جب وہ سب حاصل کرلےگا جس سے اسے خوشی ملے ،سکون ملے ۔" جب زندگی اسے نا گزارے بلکہ وہ زندگی کو گزارے۔" اتنا بے بس کے وہ خود کو یہ سوچنے سے نہ روک سکے کہ اگر وہ اس دنیا میں نا ہوتو کیا کویئ بھی ایسا نہ ہوگا جسے اسکے نا ہونے سے فرق پڑے؟ جب وہ خود کو یہ سوچنے سے باز نہ رکھ سکےکہ اگر اسے وہ مل جاتا جو اسے خوشی دے سکتا تھا تو کسی کا کیا چلا جاتا؟ وہ یہ نہ سوچے کہ لوگ ہمیشہ اُسے ہی غلط کیوں سمجھتے ہیں؟کہ سب اچھا ہوتے ہوتے اچانک خراب کیسے ہو جاتا ہے؟ کہنے کو تو ہمیں بہت سی سہولتیں ، بہت سی نعمتیں میسر ہیں لیکن اگر وہ ایک چیز جو ہم چاہتے ہیں وہی نا ہو تو کیا ہم باقی کسی نعمت کو یاد رکھتے ہیں؟ انسان ایسا کیوں ہے؟ جیسے کسی کو قید کی عادت ڈال کر پھر اس قید سے رہائ دے دی جاۓکہ جاؤ آج سے تم آزاد ہو کھل کے سانس لو ۔ لیکن یہ سب سوچتے سوچتے ہم یہ کیوں بھول جاتے ہیں "کہ سب کو سب نہیں ملا کرتا "کہیں نا کہیں کچھ کمی ہمیشہ رہ جاتی ہے جو ہمیں یہ احساس دلاتی ہے کہ ہم اس دنیا میں ہمیشہ نہیں رہنے والے آج نہیں تو کل ہمیں اپنے اصل کی طرف لوٹنا ہی ہے ۔ جہاں ہماری خواہش رکھنے سے بھی پہلے وہ چاہ پوری کر دی جایئگی۔ لیکن کیا واقعی یہ سب اتنا ہی آسان ہے؟ کیا کوئ ایسا سوچتا ہے کہ اپنی ساری زندگی ضائع کرکے جب ہم اللہ کا سامنا کرینگے تو اسکے سامنے اپنی لا حا صل خواہشات کا رونا رونے کے قابل ہونگے؟ کیا آگے سے ہم سے یہ سوال نہیں کیا جا سکتا کہ ہمنے انہے پورا کرنے کے لیے کیا کیا؟ کیا اپنی خوشی کا محل ہم نے کسی کے غموں پر تو نہیں کھڑا کیا تھا؟ تو یہ ہم نے سوچنا ہے کہ ہم کونسا راستہ اختیار کرتے ہیں کہ اس دنیا میں چند لوگوں کے آگے شرمندہ ہونا اس شرمندگی سے بہت بہتر ہے جو ہمیں اللہ کے سامنے ہو سکتی ہے۔
٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭
No comments:
Post a Comment