نیا
سال
گولیوں کی آواز سے کان پھٹ رہے تھے۔۔ دھواں ہر طرف رقص کر رہا تھا۔
کچھ دکھائی نہ پڑ رہا تھا۔۔ مگر وہ اس سب سے بے پرواہ ہاتھ میں موجود گن
سے گولیاں برساتا آگے بڑھتا جا رہا تھا۔۔ اسے نہ گولیاں روک پا رہی تھیں
نہ دھواں اسکے رستے کی رکاوٹ بن پا رہا تھا۔۔ اس پر ایک ہی دھن سوار تھی۔۔
اپنی چوکی پر دشمن کو قبضہ نہیں کرنے دینا ہے۔۔ اسکی ہاتھ سے دبتا ٹریگر
اور گن سے نکلتی گولیاں دشمن کو یہ باور کروا رہی تھیں کہ ”ہماری چوکیوں پر
قبضہ کرنا آسان نہیں ۔۔ہمارے علاقے پر قبضہ کر کے ہمارے بچوں ،عورتوں اور
جوانوں کو مارنے کا موقع ہم تمہیں کبھی نہیں دیں گے۔“
وہ آگے بڑھتا گیا۔۔ دشمن پیچھے کو ہٹ رہا تھا۔ یکایک ایک گولی آئی۔۔ کندھے
کو چیرتی ہوئی گزری۔ وہ لڑکھڑایا۔ ایک نظر زخم کو دیکھا۔ درد کا احساس
بڑھا۔۔ اور پھر سینے پر سجے جھنڈے کو دیکھا۔۔ سارا درد کہیں جا سویا۔۔
وطن کی محبت عود کر آئی۔۔ درد بھلاۓ وہ آگے بڑھتا گیا۔۔ تبھی ایک گولی سینے پر لگی۔۔ لڑکھڑا کر گرا۔۔ جیب سے والٹ نیچے کو گرا۔۔ بیٹے کی تصویر والٹ سے باہر نکلی۔۔ کانوں میں کچھ الفاظ گونجے ”بابا ! اب کی بار نۓ سال پر میرا برتھ ڈے بھی ہے۔۔
وطن کی محبت عود کر آئی۔۔ درد بھلاۓ وہ آگے بڑھتا گیا۔۔ تبھی ایک گولی سینے پر لگی۔۔ لڑکھڑا کر گرا۔۔ جیب سے والٹ نیچے کو گرا۔۔ بیٹے کی تصویر والٹ سے باہر نکلی۔۔ کانوں میں کچھ الفاظ گونجے ”بابا ! اب کی بار نۓ سال پر میرا برتھ ڈے بھی ہے۔۔
ہم
سب یہ دن ساتھ منائیں گے۔۔“ آنکھیں بند کر کے اس نے اس آواز کو اور دل سے
اس خیال کو جھٹکا۔۔ اور اٹھنا چاہا۔۔ ہاتھ مسلسل گن پر موجود تھا جس سے
نکلتی گولیاں دشمنوں کی سازش کو ناکام بنا رہی تھیں۔۔
ایک اور گولی آئی۔۔ سیدھا سینے کے آر پار ہوئی۔۔ وہ گرا۔۔ والٹ کے ساتھ ہی
موبائل گرا۔۔ ایک لنک جگمگا رہا تھا اس پر ”وائف کالنگ۔۔“ اس کے بعد ہر
منظر دھندلانے لگا۔۔ کبھی بیٹے کی تصویر نظر آتی تو کبھی موبائل کی سکرین۔۔
پھر کلمہ طیبہ سرگوشی کی آواز میں اسکے لبوں سے نکلا۔۔ اور سانس ساکت ہو
گئی۔۔
وہ
اپنا آج ہمارے کل کیلیے قربان کر گیا۔۔
اپنے بیٹے کے خواب لوگوں کے بیٹوں کے خوابوں پر قربان کر گیا۔۔۔ اور ابدی
نیند سو کر ابدی حیات پا گیا۔۔ سب اپنے بچوں کے ساتھ نیا سال منائیں گے۔
اور اسکا وہ بیٹا۔۔۔ آہ ۔۔۔
تحریر شمسہ اقبال