پچھلے دو سال سے سرکاری پاگل خانے میں رہتے رہتے، میں نے اپنی زندگی کے تقریباً ہر واقعے کو یاد کر کے اس پر ہنس اور رو لیا ہے۔
“ویسے میں پاگل نہیں ہوں ۔ ”
آپ کو یقین نہیں آئے گا، کہ اگر پاگل نہیں ہوں تو پاگل خانے میں کیا کر رہا ہوں ۔ دیکھیں جی زندگی میں بعض دفعہ ہوش کی دنیا سے ناطہ توڑ کے بے ہوش رہنا بڑا ضروری ہوتا ہے۔ ۔ میرے ساتھ بھی کچھ ایسا ہی ہے۔ ۔ ۔ ۔
میں نے غربت میں آنکھ کھولی۔ محکمہ ریلوے میں چپڑاسی بھرتی ہوا تو نجمہ سے شادی ہو گئی۔ نجمہ سے مجھے شدید محبت تھی، زندگی غربت میں سہی پر خوشی خوشی بسر ہونے لگی تھی۔ شادی کے دس سال تک ہمارے ہاں اولاد تو نہ ہوئی لیکن نجمہ کو ٹی بی ہو گئی۔ گھر کو رہن رکھوا کر چودھری صاحب سے قرض لیا اور نجمہ کے علاج کے لئے ڈاکٹر، پیر، فقیر کہاں کہاں نہیں گیا۔ ۔ ۔ لیکن نجمہ کی زندگی نے وفا نہ کی۔ ۔ ،
نجمہ کے جانے کے بعد میں بالکل تنہا تھا، دوست، رشتہ دار پہلے کونسا جان چھڑکتے تھے کہ اب تو رسمی خیر، خیریت پوچھنے سے بھی گئے۔ ۔ ۔ ۔ اور جب بندہ غریب ہو تو رشتہ دار بھی جلدی بھول جاتے ہیں ، اتنی جلدی کہ گویا کہ آپ تھے ہی نہیں ، گویا کہ اک قصہ پارینہ۔ ۔ ۔ اس دور میں دولت انسان کو یاد رکھنے اور یاد رکھوانے میں بڑا اہم کردار ادا کرتی ہے۔
ان دنوں میں شدید تنہائی کا شکار تھا کام میں جی نہ لگتا تھا، دفتر سے غیر حاضر رہتا اور یونہی گلیوں میں بے مقصد پھرا کرتا۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔
” با مقصد آدمی کا بے مقصد پھرنا بڑا تکلیف دہ ہوتا ہے۔ ۔ ۔ “۔
آفیسرز کو مجھ سے شکایت تھی مجبوراً جلد ریٹائیرمنٹ لے لی۔ مبلغ ۲لاکھ روپے پرویڈینٹ فنڈ کے مجھے ملے۔ گاوں کے چودھری صاحب نے کریانے کی دوکان کھولنے کا مشورہ دیا۔ اگرچہ کہ میری زندگی ایک جگہ آ کے رک گئی تھی، کوئی مقصد مل نہیں رہا تھا۔ ۔ ۔ ایسے میں جب آپ کے دوست احباب آپ کو بھول چکے ہوں وہاں گاوں کے چودھری کی حوصلہ افزائی بڑی بات تھی۔ ۔ ۔ ۔ میں نے ہمت باندھی کہ اور نہیں تو کاروبار کر کے چودھری صاحب کا قرض تو لوٹا دوں اور جو گھر رہن رکھوایا تھا وہ وہ واپس مل جائے۔ ۔ ویسے میں نے اس اکیلے گھر کو کرنا کیا تھا لیکن پھر بھی وہ میرا آبائی گھر تھا۔ میں نے بنک سے اپنے پرویڈینٹ فنڈ کے پیسے نکلوانے کا فیصلہ کر لیا۔ ۔ ۔ ۔
اور پھر قصہ اس شام کا کہ جو آئی اور میری زندگی بدل کر، تاریک رات میں ڈھل گئی۔
اس شام جب میں شہر سے اپنی عمر بھر کی کمائی لے کہ لوٹ رہا تھا،
مجھے دیر ہو گئی تھی۔ گاڑی سے اتر کر میں تیز تیز چلتے ہوئے گھر کی جانب روانہ ہوا۔ عمر بھر کی دولت سنھبالنا ایسا مشکل کام تھا مجھے اس دن احساس ہوا۔ ۔ ۔ جانے لوگ کروڑوں ، اربوں کیسے سنبھال لیتے ہوں گے۔ ۔ ۔ ۔ ایک ایک قدم من من وزنی ہو گیا تھا، میں جتنا تیز چلتا راستہ اتنا ہی طویل ہوتا جا رہا تھا، یا شائد ایسا مجھے محسوس ہو رہا تھا اور یوں بھی راستے کبھی طویل نہیں ہوتے انسان کی سوچ طویل ہو جاتی ہے۔ ۔ ۔
جب میں بڑے گراونڈ میں سے گزر رہا تھا تو وہاں چودھری کا بیٹا انور اور اسکے دو دوست کھڑے تھے۔ ۔ ۔ ۔ گاوں میں عموماً اتنی شام کو اس گراونڈ پر کوئی نہیں ہوتا تھا۔ ۔ ۔ ۔
“کریم دین آ گئے شہر سے پیسے لے کر۔ ۔ ۔ “………….انور نے مجھ سے پوچھا
“نہیں …”
“وہ، ، ، ، ، ، ہاں ۔ ۔ ۔ ۔ ”
“تم ہمیں قرض کب واپس کرو گے۔ ۔ ۔ “?
“جی میں اس سے کاروبار کروں گا، اور جلد ہی قرض لوٹا دوں گا۔ ۔ ۔ ۔ ”
“پر ہم تو ابھی پیسے لیں گے کریم دین۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ”
ابھی نہیں دیکھیں ، یہ میرا عمر بھر کا اثاثہ ہے۔ ۔ ۔ ۔ میرا یقین کریں میں جلد قرض لوٹا دوں گا۔ ۔
ہماری رقم کوئی بیکار پڑی تھی کیا؟؟؟
لیکن اسکے بدلے میں نے اپنا گھر رہن بھی تو رکھوایا ہے؟؟؟
اچھا تو اب تم باتیں بھی سناو گے۔ ۔ ۔ اب تمہارے منہ میں بھی زبان آ گئی ہے۔ ۔ ۔ ۔
یہ کہہ کر انور نے پستول میری کنپٹی پر رکھ دیا۔ اس کے دوست نے بیگ مجھ سے چھینا اور وہ موٹر سائیکلوں پر بیٹھ کے یہ جا وہ جا۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔
میری عمر بھر کی کمائی۔ ۔ ۔ ۔ جس کا ایک روپیہ بھی میں استعمال نہ کر سکا۔ ۔ ۔ ۔ آپ نے کبھی کسی کی عمر بھر کی کمائی لٹتے دیکھی ہو تو، یہ بڑے ہی کرب کی بات ہوتی ہے۔ ۔ ۔ میں بھاگم بھاگ تھانے پہنچا۔ تھانیدار نے چوھدری صاحب کے بیٹے کے خلاف رپورٹ لکھنے سے صاف انکار کر دیا۔ ۔ ۔ تھانیدار کا موقف تھا کہ اتنے معزز آدمی بھلا ایسا کیسے کر سکتے ہیں ، چودھری صاحب نے الگ برا بھلا کہا، اور تھانیدار کو کہا کہ میں اس الزام کے باوجود اس سے اس کا گھر خالی کرنے کو نہیں کہوں گا۔ ۔ ۔
سارے گاوں میں چودھری صاحب کی اس دریا دلی کی باتیں ہونے لگیں ۔ ۔ ۔ ۔
میری بات پر کسی کو اعتبار نہیں تھا۔
غریب کی بات بھی بھلا کوئی بات ہوتی ہے۔ ۔ ۔ ۔ ،
میرے پاس گذر اوقات کو فقط گھر کا سامان تھا، جو ایک ایک کر کے بکنے لگا تھا۔ ۔ ۔ ۔ ایک ہلکی سی آرزو جو کام کرنے کی دل میں جاگی تھی اب وہ بھی نہیں تھی۔ ۔ ۔ میں کیوں کام کرتا، کس کے لیئے کام کرتا۔ ۔ ۔ سارا سارا دن گھر میں پڑا رہتا۔ لوگ پہلے بھی کم ملتے تھے اور اب تو بالکل ملنا جلنا ترک کر دیا تھا،
دیکھئیے، غم اتنا شدید نہیں ہوتا، لیکن جب کوئی غم بانٹنے والا نہ ہو، جب کوئی آپ کی بات نہ سنے تو غم میں ایسی شدت آ جاتی ہے کہ غم کے جھکڑ انسان کو تنکوں کی طرح اڑا کے لے جاتے ہیں ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ،
میں بھی تنکہ تنکہ بھکر رہا تھا۔ ۔ ۔ ۔ ذرہ ذرہ ہو کر۔ ۔ ۔
مجھے باتیں بھولنے لگیں تھیں ۔ حافظے کا یہ عالم تھا کہ بعض دفعہ دوکاندار سے چیز خریدنے جاتا تو بھول جاتا کے کیا خریدنا ہے، کبھی پیسے دینا بھول جاتا۔ ۔ ۔ ۔ ، ایک عرصے تک حجامت نہ کرانے کی وجہ سے بال بڑھ گئے تھے۔ لوگ آہستہ آہستہ مجھے پاگل سمجھنے لگے تھے۔ بچے ڈرتے تھے۔ ۔ ۔ ۔ پہلے دبے دبے لفظوں میں پاگل ہے کا لفظ سنتا تھا پھر لوگوں کے ہاتھ شغل لگا وہ پاگل پاگل کہہ کے چھیڑتے تھے۔ ۔ ۔ ۔ ۔ میں یونہی سارا سارا دن گھر کے دروازے میں بیٹھا رہتا، ۔ ۔ شروع شروع میں ، میں نے کوئی توجہ نہ دی کہ لوگ مجھے پاگل کہتے ہیں لیکن پھر ایک دن میں انکے پیچھے بھاگنے لگا۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔
کہ میرے پاس اس کے علاوہ کوئی چارہ نہیں تھا….. میں اور کر ہی کیا سکتا تھا۔ ۔ ۔ ایک نہ ایک دن میں نے پتھر اٹھا کے بھاگنا تھا سو ایک دن میں نے پتھر اٹھا لیا۔ ۔ ۔
میں پاگل نہیں تھا۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔
لیکن تھا۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔
پھر میں لوگوں کے پیچھے بھاگ بھاگ کر تھک گیا اور میرے پاس کھانے کو بھی پیسے ختم ہو گئے کہ گھر میں اب ایک بھی چیز نہیں تھی کہ جسے بیچ کر پیٹ کی آگ کو ٹھنڈا کیا جاسکتا۔ صرف میں تھا اور گھر کے درو دیوار، جو پہلے ہی رہن رکھے جا چکے تھے۔ ۔ ۔ ۔ گاوں والوں نے چودھری صاحب سے گزارش کی کہ ایک پاگل کو گاوں میں نہیں رہنا چاہیئے سو ایک دن چودھری صاحب نے اپنا مکان خالی کرنے کا حکم صادر کر دیا، یہ مکان، یہ میرے آباء و اجداد کا مکان، جو کہ میرا تھا لیکن میرا نہیں تھا۔ ۔ ۔ ۔ ۔
پاگل کا ایک ہی ٹھکانہ ہے۔ جی ہاں پاگل خانہ، سو ایک دن پاگل خانے آن پہنچا، انتظامیہ نے داخل کرنے سے انکار کر دیا کہ کوئی گواہ لاؤ جو تمہارے پاگل ہونے کی گواہی دے۔ ۔ ۔ ۔ یہ دنیا بڑی ظالم ہے پہلے خود پاگل بناتی ہے پھر پاگل پن کا سرٹیفیکیٹ بھی مانگتی ہے۔ ۔ ۔ ۔
سوچودھری صاحب کے ہاں حاضر ہوا۔ ۔ مکان کی چابی انہیں تھمائی اور پاگل خانے تک چلنے اور داخل کرانے کی درخوست کی۔ ۔ ۔
چودھری صاحب جیسے نیک دل آدمی بھلا اس نیک کام میں کیوں نہ ساتھ دیتے۔ ۔ ۔ ۔
٭٭٭
Is it real? Aur bs yahin tk hai?
ReplyDeleteye bs itna he tha
Deleteیں پاگل نہیں ہوں۔۔۔ احساسات و معاشرتی تضاد میں گندھی ہویَ داستاں۔۔۔”ذہین وہ ہے جو خود کو ماحول میں ڈھال لے” مرکزی کردار نے ذندگی کی چھوٹی چھوٹی پیچیدگیوں کے سامنے نہ چاہتے ہوےَ بھی خود کو گروی رکھ دیا۔۔۔ چوہدری صاحب کے بارے بس اتنا کہنا کافی ہو گا ک یہ لوگ کسی بھی معاشرے کے خوشقسمت کردار ہیں جنکو ہر کام کرنے کے خود ساختہ اختیار ہوتے ہیں۔۔۔
ReplyDelete